Brailvi Books

حضرتِ سیِّدُنا زُبیر بن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
12 - 70
یہ نوجوان ابھی کچھ دور ہی پہنچاتھاکہ سامنے سے دو جہاں  کے تاجوَر، سلطانِ بَحرو بَرصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے رخِ زیبا کا دیدار ہو گیا اور اس کی جان میں  جان آئی۔ شہنشاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس نوجوان کی یہ حالت و کیفیت دیکھ کر سبب دریافت فرمایا تو اس نےشیطان کی کارستانی کا سارا ماجرا عرض کر دیا۔ سرکارِ والا تَبار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ سب سن کر دریافت فرمایا: تم کیا کرنے والے تھے؟ عرض کی: بس میں  نے ارادہ کر لیا تھا کہ بغیر کسی تمیز کے اہلِ مکہ کو تہِ تیغ (تلوار سے قتل) کرتا چلا جاؤں  گا، خون کی نہریں بہا دوں گااور کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑوں  گا۔ سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس نوجوان کاعشق و مستی سے سرشار جذبہ دیکھ کر تبسم فرمایا اور نہ صرف اپنی چادر مبارک عطا فرمائی بلکہ انہیں  اور ان کی تلوار کو اپنی دعاؤں  سے بھی نوازا۔(1) 
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نَبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  پر جان قربان کرنےاور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے دشمنوں  کی جان لینے کا جذبہ رکھنے والے اس بہادر نوجوان کو آج ساری دنیا حضرت سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے نام سے جانتی ہے۔
مــــــــــــــــــــدینـــہ
(1)…الریاض النضرۃ، الباب السادس فی ذکر مناقب الزبیر بن العوّام، الفصل السادس فی ذکر خصائصہ، ج۲، ص۲۷۴، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۱۸، ص۳۴۴