دن کے وقت محوِ آرام تھاکہ اس نےشیطان کی پھیلائی ہوئی یہ جان لیوا اَفواہ سنی کہ (مَعَاذَ اللہ ) رحمتِ عالَم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کفارِ مکہ نے شہید کر دیا ہے، یہ اندوہ ناک خبر اس کے دل پر بجلی بن کر گری اور سوائے اس بات کے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ جن کے صدقے اس دنیا میں جینے کا سلیقہ ملا، ان کے بغیرجینے کا کیا مزہ۔ اعلیٰحضرت، مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن نے کیا خوب ارشاد فرمایا ہے:
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہان ہے
شمعٔ نبوت کے اس پروانے نے جب یہ سناکہ جانِ جہان، رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وصال فرما گئے ہیں تویہ پختہ ارادہ کر لیا کہ اہلِ جہاں کو بھی اس جہانِ آب و گل میں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ پس یہ ارادہ باندھا اور تمام اہلِ مکہ کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کا جذبہ لے کر اس جواں مرد نے تلوار نکالی اور اس حال میں اہلِ مکہ کی طرف دوڑ پڑا کہ جسم پر مناسب لباس بھی موجود نہ تھا، بس جس حالت میں تھا چل پڑا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا :
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشا لبِ بام ابھی