سُبْحَانَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! قربان جائیے حضرت سیِّدُناسعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے عشقِ رسول پر، والدہ کی یہ حالت دیکھ کر بھی آپ پر کوئی اثر نہ ہوا، والدہ کایہ دردناک اندازآپ کی استقامت کو متزلزل نہ کر سکا کیونکہ معاملہ دین اسلام اور محبوب رب العلمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے عشق کاتھا اگرکوئی دنیاوی معاملہ ہوتاتویہی حضرت سیِّدُناسعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ شایدآگے بڑھ کرماں کے قدموں سے لپٹ جاتے اور والدہ کی اس بات پربھی سرِ تسلیم خم کر دیتے لیکن پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی محبت اورپیاری صحبت کامعاملہ تھا اور آپ کوکسی بھی طرح اپنے محبوب کی جدائی برداشت نہ تھی۔ چنانچہ آپ نے اپنی والدہ کے اِس اندازپر جن الفاظ میں جواب دیاوہ تا قیامِ قیامت عشاق کے لیے مشعلِ راہ بنا رہے گا بلکہ اسے تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جاتا رہے گا، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عشق ومحبت سے بھرپور انداز میں گویا یوں فرمايا: ’’اے میری ماں! واقعی اگر کوئی دنیاوی معاملہ ہوتا تو میں ہر گز تیری نافرمانی نہ کرتا مگر یہ معاملہ تو میرے اس محبوب کا ہے جو تجھ سے کروڑوں گنا بڑھ کر مجھ سے محبت فرماتا ہے، اے ماں! یہ اس ذاتِ اقدس کا معاملہ ہے جو رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن ہے، شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن ہے،رَاحَۃُ الْعَاشِقِیْن ہے، جس کی جدائی کے مقابل میں دُنیا ومافیھا یعنی دنیا