کے آس پاس پہریداروں کی ایک فوج ہو گی اور اس تک پہنچنے کے لیے شاید مجھے کئی ایک مراحل طے کرنا ہوں گے۔ لیکن کیا دیکھتا ہے کہ ایک کمزور جسم اور لمبے قد والے بارعب شخص زمین پر بیٹھے ہیں اور اپنے ہاتھ سے تیروں کو الٹ پلٹ کر جنگی ہتھیاروں کا معائنہ کر ر ہے ہیں۔ رومی سفیر نے اس شخص کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی حیرانی سے پوچھا: ’’کیا آپ ہی مسلمانوں کے سپہ سالار ہیں ؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’جی ہاں۔‘‘ سفیر نے کہا: ’’آپ کے زمین پر تشریف فرما ہونے کی کیا وجہ ہے؟ اگر تکیے سے ٹیک لگا کر یا قالین پر تشریف فرما ہوتے تو بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک معزز ہی رہتے، آپ نے خود کو ان نعمتوں سے کیوں محروم رکھا ہوا ہے؟‘‘ اس پرمسلمانوں کے سپہ سالار نے فرمایا:’’جب اللہ عَزَّوَجَلَّ حق بیان کرنے سے حیا نہیں فرماتا تو میں آپ سے کیوں شرماؤں ؟ بات دراصل یہ ہے کہ میری ضرورت کا سامان زیادہ سے زیادہ تلوار، گھوڑا اور دیگر چند ہتھیار ہیں ، البتہ! اگر انکے علاوہ مجھے کسی اور چیز کی ضرورت محسوس ہو تو میں اپنے اسلامی بھائی معاذ سے قرض لے لیتا ہوں ، اگر معاذ کو کوئی حاجت ہوتی ہے تو وہ مجھ سے قرض لے کر اپنی ضرورت پوری کر لیتے ہیں (یوں ہمارا دل ان آسائشوں کی جانب مائل ہی نہیں ہوتا جن کا تذکرہ تم کر رہے ہو) بالفرض! اگر مجھے قالین میسر ہوبھی جائے تو میں اس پر کیسے بیٹھ سکتا ہوں جبکہ