سمندر آنکھوں کے ذریعے آنسوؤں کی صورت میں امنڈ آیاحتی کہ امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ حیران ہو کرپوچھتے ہیں :اے میرے بھائی! کیا ہوا؟ آپ کی آنکھوں سے اشکوں کی یہ برسات!آخر ایسی کونسی پریشانی لاحق ہوگئی کہ آج در و دیوار ہی نہیں شہرِ مدینہ کے گلی کوچے بھی آپ کے اشکوں کی گواہی دے رہے ہیں ؟ سُبْحَانَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے عشقِ محبوب سے معمور اس جملےپرکروڑوں جانیں قربان! عرض کی: ’’لگتا ہے کہ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھ سے ناراض ہیں۔‘‘ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کیوں نہ اپنے محبوب کی ناراضی کو محسوس کرتے کہ وہ تو ہر دم محبوبِ باری تعالیٰ کی رضا چاہتے جیسا کہ خود آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ربّ عَزَّ وَجَلَّ آپ کی رضا چاہتا۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت نے اس مفہوم کی کیا خوب ترجمانی فرمائی ہے:
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو خودپر قابو نہ رہاکیونکہ سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ناراضی ربّ کی ناراضی ہے۔پس امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق