Brailvi Books

حضرت سیدنا عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
80 - 126
 اور بارگاہِ نبوت سے اجازت پا کر واپسی کے لیے روانہ ہوئے تو خود پر قابو نہ رہا اوربے اختیار آنکھیں چھلک پڑیں ،راستے میں امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے ملاقات ہو گئی، جو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو یوں اشکبار دیکھ کر بیقرار ہو گئے اور پوچھا:’’میرے بھائی! خیریت تو ہے جو یوں اشکوں کی برسات سے راستوں کو سیراب کرتے ہوئے جا رہے ہیں ؟‘‘عرض کی: ”آج سرورِ کون و مکاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی بارگاہ میں موجود تمام لوگوں کو اپنی رحمتوں سے نوازا مگر مجھ پر کرم کی بارش نہ ہوئی لگتا ہے کہ شاید حضور نبیٔ آخر الزماں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  مجھ سے خفا ہیں۔“
سدا میٹھی نظر رکھنا اگر تم ہو گئے ناراض
قسم ربّ کی کہیں کا نہ رہوں گا  یا رسول اللہ
امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بارگاہِ رسالت میں حاضرہوئے اورحضرت سیِّدُناعبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی ساری کیفیت بیان کردی،مدینےکےتاجدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اپنے دیوانے کی دیوانگی جان کر ارشاد فرمایا کہ:’’ میں ان سے ناراض نہیں بلکہ میں نے تو ان کے ایمان کو ہی کافی جانتے ہوئے انہیں ان کے ایمان کے سپرد کر دیا تھا۔‘‘(۱)
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
(۱)…المصنف لعبد الرزاق، باب اصحاب النبی ، الحدیث:۲۰۵۷۸، ج۱۰، ص۲۲۵