جیسے زندگی کاآخری کھاناہو،اس کے بعدکھانامیسرہی نہ ہوگا، گویا ہماری زندگی کامقصد ہی یہی ہےکہ ’’کھاؤ پیو اور جان بناؤ‘‘۔ حالانکہ کھانے کے معاملے میں ہمارے اسلاف رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کا قطعاً یہ طرزعمل نہیں تھا۔
بھوک بادشاہ اور شکم سیری غلام ہے:
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 1548 صَفحات پر مشتمل کتاب،’’ فیضانِ سنّت ‘‘ صَفْحَہ 682 پر قُوْتُ الْقُلُوبکے حوالے سے نقل کئے جانے والے تین مدنی پھول ملاحظہ کیجئے:
٭… ’’بھوک بادشاہ اور شکم سیری غلام ہے، بھوکاعزّت والا اور (زیادہ)پیٹ بھرا ذَلیل ہے۔‘‘
٭… ’’بھوک سب کی سب عزّت ہے جبکہ پیٹ بھرنا سَر اسَر ذِلّت ہے۔‘‘
٭… بعض اسلاف رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی سے منقول ہے: ’’بھوک آخِرت کی کُنجی اور زُہْد (یعنی دُنیا سے بے رغبتی ) کا دروازہ ہے جبکہ پیٹ بھرنا دُنیا کی کُنجی اور (دُنیا کی طرف) رَغْبت کا دروازہ ہے۔‘‘(۱)
حضرتِ سیِّدُنا با یزید عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْمَجِیْد کی خدمت میں عرض کیا گیا: ’’آپ بھوکا رہنے پر اتنا زور کیوں دیتے ہیں ؟‘‘ فرمایا: ’’اگر فرعون بھوکا ہوتا تو کبھی خُدائی
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
(۱)…قُوْت الْقُلوب، ج ۲، ص ۲۸۸