عبد العزیز عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْعَزِیز کی سوچ ایک تھی، یہ لوگ مال و دولت سے بھاگتے اور ان کے پاس مال کبھی نہ ٹھہرتا بلکہ اِدھر آتا اور اُدھر چلا جاتاتھا۔
جو لوگ نفس مُطْمَئِنَّہ کے مالک ہوں یعنی مال ہونے نہ ہونے سے اُن کا دل پریشان نہ ہو وہ با اختیار ہیں کہ چاہیں تو بقیہ مال صَدَقہ وخیرات کر دیں یا اپنے پاس ہی رکھیں۔ حضرت سیِّدُنا عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا شمار انہی لوگوں میں ہوتا ہے جن کا دل مال ہونے نہ ہونے سے کبھی پریشان نہ ہوا بلکہ کئی بار آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے راہِ خدا میں اپنا مال پانی کی طرح بہایا کہ خود محبوب ربِّ داور، شفیعِ روزِ مَحشر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو مال میں برکت کی دعاؤں سے نوازا۔
ورثا کے لیے کتنا مال چھوڑا جائے؟
اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت، مجدد دین و ملت مولانا شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَحْمٰن فتاویٰ رضویہ شریف میں فرماتے ہیں کہ اس (مال) کی مقدار جو اُن (وارثوں ) کے لیے چھوڑنا مناسب ہے ہمارے امام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے چار ہزار درہم مروی ہے یعنی ہر ایک کو اتنا حصّہ پہنچے اور امام ابوبکر فضل سے دس ہزار درہم۔(۱)
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
(۱)…فتاوٰی رضویہ، ج۱۰، ص۳۲۶