مال ورثا کے لیے چھوڑنے کا حکم:
حضرت سیِّدُنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارا اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ کر جانا انہیں غریب ومحتاج چھوڑنے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔‘‘ (۱)
تقویٰ و فتویٰ میں فرق:
مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الامَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ذر غفاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ حق گوئی میں کسی کی رعایت نہیں فرماتے تھے، اسی حق گوئی کی بناپر تکالیف بھی اٹھاتے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مکہ معظمہ میں آ کر مسلمان ہوئے جبکہ کفار کا بہت زور تھا اور بار بار مجلسِ کفار میں آکر اپنے اسلام و ایمان کا اعلان کرتے رہے اور ان کے ہاتھوں بہت ہی ایذا پاتے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کاموقف یہ تھا کہ مال رکھنا حرام ہے جو پاؤ فوراً خرچ کر دو اور وہ اس پر عامل بھی تھے۔
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
(۱)…صحیح البخاری،کتاب الوصایا،باب ان يترك ورثته اغنياء …الخ،الحدیث:۲۷۴۲، ج۲، ص۲۳۲ ملتقطاً