نے اِس پر فَرض کی، وہ ان کو مجبور نہیں کر سکتاکہ وہ دنیا سے کَنارہ کشی اختیار کر لیں اور بھوک پیاس پر صَبر سے کام لیں ،اپنی جان کو جتنا چاہے آزمائش میں ڈال سکتا ہے مگر بال بچّوں کو خالی چھوڑنا اس پر حرام ہے۔ جیسا کہ محسنِ کائنات، فخر موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: كَفَى بِالْمَرْءِ اِثْمًا اَنْ يُضَيِّعَ مَنْ يَّقُوتُ یعنی بندے کے گناہ گار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ جس کا نفقہ اس پر لازم ہے وہ اسے ضائع کر دے۔ (۱)
اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت، مجدد دین و ملت، پروانۂ شمع رسالت، مولانا شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَحْمٰن فتاویٰ رضویہ شریف میں فرماتے ہیں کہ عیال (بیوی بچوں ) کو بُھوک پر قائم رکھنا جائز نہیں اسکو انکے حق میں ایسا ممکن نہیں اور اسی طرح کمانے والے کو توکل کر لینا بھی جائز نہیں ، عیال کے حق میں توکل کرتے ہُوئے انھیں چھوڑ دینا یا توکل کرتے ہُوئے ان کے اخراجات کا اہتمام نہ کرتے ہُوئے بیٹھ جانا حرام ہے اور اگر یہ انکی ہلاکت کا سبب بن گیا تو یہ شخص پکڑا جائے گا۔(۲)
مِرے غوث کا وسیلہ ، رہے شاد سب قبیلہ
انہیں خُلد میں بسانا ، مَدَنی مدینے والے
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
(۱)…سنن ابی داود، کتاب الزکاۃ، باب في صلة الرحم، الحدیث: ۱۲۹۶، ج ۲، ص۱۸۴
(۲)…فتاویٰ رضویہ، ج۱۰، ص۳۲۳