Brailvi Books

حضرت سیدنا عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
56 - 126
 حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا مَسْلَمَہ بن عَبدُ الْمَلِک عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْمَلِک حضرتِ سیِّدُنا عُمَر بن عبدُ العزیز عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْعَزِیز کی ظاہِری حیات کے آخِری لمحات میں حاضِر ہوئے اور کہا: ’’اے اَمیرُ المومنین! آپ بھی بے مِثال زندَگی گزار کر دُنیا سے تشریف لے جا رہے ہیں ، آپ کے 13 بچّے ہیں لیکن وِراثت میں اُن کے لئے کوئی مال و اسباب نہیں چھوڑا!‘‘ یہ سن کر حضرتِ سیِّدُنا عمرَ بن عبد العزیز عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْعَزِیز  نے اِرشاد فرمایا: ’’میں نے اپنی اَولاد کا حق روکا نہیں اور دوسروں کا اِن کو دیا نہیں اور میری اَولاد کی دو حالَتیں ہیں اگر وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ  کی اِطاعت کریں گے تو وہ اُن کو کِفایَت فرمائے گا کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ  نیک لوگوں کو کِفایَت فرماتا ہے اور اگر میری اولاد نافرمان ہوئی تو مجھے اِس بات کی پرواہ نہیں کہ میرے بعد مالی اعتبار سے اُن کی زندَگی کیسے گزرے گی۔‘‘(۱)
بال بچوں کی ضروریات پوری کرنا واجب ہے:
اگر کسی کے پاس مال ہے تو اسے یہی حکم ہے کہ صَدَقہ کرنے کے بجائے اولاد کی ضَرورت کے لئے رکھ چھوڑے۔ (۲) کیونکہ بال بچوں کی کَفالَت شَریعت 
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
(۱)…اِحیاءُ الْعُلوم، ج۳، ص۲۸۸ 
(۲)…خزانے کے انبار، ص۲۰