ہے اور جو شے اُس میں خلل ڈالنے والی ہو ممنوع ہے۔ کیونکہ جو لوگ نفس مُطْمَئِنَّہ کے مالک ہوں یعنی مال ہونے نہ ہونے سے اُن کا دل پریشان نہ ہو وہ با اختیار ہیں کہ چاہیں تو بقیہ مال صَدَقہ وخیرات کر دیں یا اپنے پاس ہی رکھیں۔ اور عِیال دار بھی اپنے نَفس کے حق میں مُنْفَرِد کے حکم میں ہے یعنی معاملہ اس کی اپنی ذات کا ہو تو وہ مُنْفَرِد کے حکم میں ہے مگر بال بچوں کی کَفالَت شَریعت نے اِس پر فَرض کی، وہ ان کو مجبور نہیں کر سکتاکہ وہ دنیا سے کَنارہ کشی اختیار کر لیں اور بھوک پیاس پر صَبر سے کام لیں ،اپنی جان کو جتنا چاہے آزمائش میں ڈال سکتا ہے مگر بال بچّوں کو خالی چھوڑنا اس پر حرام ہے۔
٭… سب مال راہِ خدا میں خَرچ کر دینا اُسی بندے کے لئے جائز ہے جس کے سب بال بچّے صابِر ومُتَوَکِّل ہوں۔(۱)
سَیِّدُنَا عُمَر بن عبدُ العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی مدنی سوچ:
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ 39 صَفحات پر مشتمل رسالے،’’ خزانے کے انبار ‘‘ صَفْحَہ 20 پر پندرھویں صدی کی عظیم علمی و روحانی شخصیت، شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، بانیٔ دعوتِ اسلامی
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
(۱)…فتاویٰ رضویہ، ج۱۰، ص۳۱۱ تا ۳۲۷ ملخصاً