دامن اسلامی بھائی کے لیے ایثار کی ایک ایسی اعلیٰ مثال قائم کی جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا اور وہ یہ تھی کہ سب سے پہلے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنا آدھا مال حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی خدمت میں پیش کر دیا، پھر اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس کے بعد آپ نے جو کچھ اپنے بھائی کی خدمت میں پیش کیا اس پر تو چشمِ فلک بھی حیران رہ گئی ہوگی کہ سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اس عظیم خدمتگار و پیکرِ ایثار صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کہا:’’میری دو ازواج ہیں ، آپ ان میں سے جسے چاہیں پسند فرما لیں ، میں اسے طلاق دے دوں گا، پھر آپ اس سے شادی کر لیجئے گا۔‘‘ مگر قربان جائیے حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی خودداری پر۔ آپ نے اپنے بھائی کی اس عظیم پیشکش سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ اس لئے کہ اگر آپ مکے جیسی متمول اور شاندار زندگی حاصل کرنا چاہتے تو اس کے جلد حصول کا یہ مختصر ذریعہ بہت ہی آسان تھا مگر سُلْطَانُ الْمُتَوَکِّلِیْن، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دربارِ دُر بار کے فیض یافتہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے جو خودداری کا درس اپنے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے سیکھا تھا،اس کے سبب دولت کی یہ عظیم پیشکش آپ کی خودداری کو کیسے متزلزل کر سکتی تھی؟ حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن بن