Brailvi Books

حضرت سیدنا عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
48 - 126
 لئے مال ودولت حاصل کرتاہے وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اِس پر غضب ناک ہوگا۔‘‘ (۱)
مال ’’خَیْر‘‘ ہے:
مال و دولت اگر شرعی تقاضوں کے مطابق ہو اور اس کا استعمال بھی خیر کے کاموں میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ نے خود قرآن پاک میں مال کو خیر فرمایا ہے ۔چنانچہارشادفرمایا:
اِنۡ تَرَکَ خَیۡرَۨاۚۖ الْوَصِیَّۃُ (پ۲،البقرۃ:۱۸۰)
ترجمۂ کنز الایمان: اگر کچھ مال چھوڑے تو وصيت کر جائے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یہ مال ہی ہے جس کے ذريعے اللہ  عَزَّ وَجَلَّ اپنے بندوں میں سے جس پرچاہتاہے احسان فرماتا ہے۔ اگر تقویٰ و پرہیزگاری کے ساتھ مالداری بھی ہو تو کوئی حرج نہیں کیونکہ مروی ہے کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ ’’لَا بَأْسَ بِالْغِنَى لِمَنِ اتَّقَى‘‘ یعنی متقین کے غنی ہونے میں حرج نہیں۔(۲) اور ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ نورکے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  صحابۂ  کرام
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
(۱)…شعب الایمان للبیہقی، باب فی الزہد وقصر الامل، الحدیث: ۱۰۳۷۵، ج۷، ص۲۹۸
(۲)…سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب الحث على المكاسب، الحدیث:۲۱۴۱، ج۳، ص۷