کرنا جائز ہے کیونکہ حدیث شریف میں آیاہے کہ امام الصَّابِرِیْن، سَیِّدُ الشَّاکِرِیْن،سُلْطَانُ المُتَوَکِّلِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماپنے گھر والوں کے لئے ایک سال تک کی غذا جمع رکھاکرتے تھے۔(۱)
آرائش کے لئے مال کمانے کاحکم:
زیب وآرائش کے لئے ضرورت سے زیادہ مال کماناجائزہے۔چنانچہ، حضرت سیِّدُناامام عیسیٰ بن محمد قرشہری حنفی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِیکی تصنیف ’’اَلْمُبْتَغٰی‘‘میں ہے:’’ زینت وآرائش اور خوش حالی کے لئے جوکسب کیاجائے وہ مُباح یعنی جائزہے۔حتی کہ عمارتیں بنانا،دیواروں پرنقش و نگارکرنااورلونڈی وغلام خریدنا(یہ اب نہیں پائے جاتے)یہ سب مباح ہے۔اس فرمانِ مصطفی کی رُوسے کہ ’’ اچھامال نیک آدمی کے لئے اچھاہے۔‘‘ (۲)
تکبراوربڑائی جتانے کے لئے مال کمانا:
تکبر،لوگوں پر فخر اور بڑائی جتانے کے لئے مال کمانا حرام ہے۔چنانچہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال،دافعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوالصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافرمانِ عبرت نشان ہے:’’جو شخص تکبر اور بڑائی جتانے کے
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
(۱)…الفتاوی البزازیۃ مع الفتاوی الھندیۃ ،کتاب الزکاۃ، ج۴، ص۸۵
(۲)…اصلاح اعمال، ج۱،ص۷۵۲