بجائے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کےحبیب، حبیبِ لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی محبت کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہو اور وہ اپنی دولت کو راہِ خدا میں قربان کرنے کے لیے ہروقت تیار رہے۔
مال کمانے سے متعلق چند احکام:
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 1197 صَفحات پر مشتمل کتاب، ’’بہارِ شریعت‘‘ جلد سوم صَفْحَہ 609 پر صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں کہ: ٭… ’’ اتنا کمانا فرض ہے جو اپنے لیے اور اہل و عیال کے لیے اور جن کا نفقہ اس کے ذمہ واجب ہے ان کے نفقہ کےلیے اورادائے دَین (یعنی قرض کی ادائیگی) کے لیے کفایت کرسکے ٭… اس کے بعد اسے اختیار ہے کہ اتنے ہی پر بس کرے یا اپنے اوراہل و عیال کے لیے کچھ پس ماندہ رکھنے (یعنی بچا کر رکھنے) کی بھی سعی و کوشش کرے٭… ماں باپ محتاج و تنگدست ہوں تو فرض ہے کہ کما کر انہیں بقدرِ کفایت دے۔ ‘‘(۱)
آئندہ کیلئے مال جمع کرکے رکھنا:
آئندہ سالوں کے لئے جمع کرکے رکھناتاکہ بوقت ِ ضرورت کام آئے، ایسا
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
(۱)…الفتاوی الھندیۃ، کتاب الکراھیۃ،الباب الخامس عشر في الکسب،ج۵،ص۳۴۸ ، ۳۴۹