حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے دولت خانہ پر تشریف فرما ہیں ، نوجوانانِ جنت کے سردار حضرت سیِّدُنا حسن وحسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو بھوک سے بیتاب دیکھ کر تاجدارِ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے ارشاد فرمایا: ’’ہماری خدمت کی سعادت کون حاصل کرے گا؟‘‘ اتنے میں حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ایک طشت میں ستو، پنیر اور گھی سے تیار کردہ حلوے کے ساتھ دو تلی ہوئی روٹیاں لے کر حا ضرِ خدمت ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے د عادیتے ہوئےارشاد فرمایا: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ تمہارے دنیاوی معاملات کے لیے کافی ہے اور تمہارے اُخروی معاملات کا میں خود ضامن ہوں۔‘‘(۱)
میرے پیارے آقا کی شان ہی نرالی ہے
دو جہاں کے داتا ہیں اور ہاتھ خالی ہے
سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کافقراختیاری تھا:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یاد رہے کہ رحمتِ عالمیان، مالک دو جہان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فقر (یعنی ظاہری مال واسباب کاکم ہونا) اختیاری تھا،
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
(۱)…کنز العمال، تتمۃ العشرۃ، باب جامع العشرۃ المبشرۃ، الحدیث: ۳۶۷۳۲، ج۷، الجزء ۱۳،ص ۱۰۷ ملتقطاً