Brailvi Books

حضرت سیدنا عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
27 - 126
خوش بختی کا پہلا سبب:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے دروازے پر خوش بختیوں نے جو ڈیرے ڈال رکھے تھے اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ یہ پیدائشی خوش بخت اورنیک خصلت تھے۔ چنانچہ، 
حضرت سیِّدُنا حُمَیْد بن عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت سیِّدُنا عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ پر بیماری کے سبب بے ہوشی طاری ہوئی تو سب نے یہ گمان کیا کہ شاید آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اس جہانِ فانی سے کوچ فرما گئے ہیں۔ چنانچہ، میری والدہ ماجدہ حضرت سیدتنا ام کلثوم بنت عقبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا (جزع فزع کرنے کے بجائے) فوراً مسجد کی طرف بڑھیں تاکہ اس اندوہناک صدمے پر صبر میں مدد چاہنے کے لئے ربّ ذو الجلال کے اس فرمان پر عمل پیرا ہوں :﴿ اسْتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ؕ ﴾ (پ۲، البقرۃ:۱۵۳) ’’ترجمۂ کنز الایمان: نماز اور صبر سے مدد چاہو۔ ‘‘ مگر کچھ ہی دیر میں حضرت سیِّدُنا عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو ہوش آیا تو آپ نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بڑائی و بزرگی بیان کی یعنی اَللہُ اَکْبَر کہا اور سب گھر والوں نے بھی اَللہُ اَکْبَر کہا۔ پھر آپ ہم سے پوچھنے لگے: ’’کیا مجھ پر غشی طاری ہوگئی تھی؟‘‘ ہم نے عرض کی: ’’جی ہاں ‘‘ توآپ نے بتایا کہ میرے پاس دو فرشتے آئے جن میں سے