بالا حدیث کے تحت ارشادفرماتے ہیں : ’’حدیث میں جواِن دونوں ناموں کو تمام ناموں میں خدا تَعَالٰی کے نزدیک پیارا فرمایا گیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنا نام عبد کے ساتھ رکھنا چاہتا ہو توسب سے بہتر عبدﷲو عبدالرحمن ہیں ، وہ نام نہ رکھے جائیں جو جاہلیت میں رکھے جا تے تھے کہ کسی کا نام عبد شمس اور کسی کاعبد الدارہوتا۔ ‘‘نیزاس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ یہ دونوں نام محمد واحمدسے بھی افضل ہیں،کیونکہ رحمتِ عالَم، نُورِ مُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اسم پاک ’’محمد واحمد‘‘ہیں اور ظاہر یہی ہے کہ یہ دونوں نام خوداللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے لیے منتخب فرمائے، اگریہ دونوں نام خدا کے نزدیک بہت پیارے نہ ہوتے تو اپنے محبوب کے لیے پسند نہ فرمایا ہوتا۔(۱)
’’محمد‘‘نام رکھنے کی فضیلت پر تین فرامینِ مصطفےٰ:
(۱)…جسکے لڑکا پیدا ہوا اوروہ میری محبت اور میرے نام پاک سے تبرک کے لئے اس کانام’’محمد‘‘رکھے وہ اور اس کالڑکا دونوں بہشت میں جائیں۔ (۲)
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
(۱)…بھارِ شریعت، ج۳، ص۶۰۱
(۲)…کنزالعمال،کتاب النکاح،الباب السابع فی برالاولاد وحقوقھم، الحدیث:۴۵۲۱۵، ج۸، الجزء السادس عشر، ص۷۵ ۱