کے کوئی معانی نہیں ہوتے یا پھر اچھے معانی نہیں ہوتے،ایسے نام رکھنے سے بچا جائےبلکہ چاہئے کہ انبیاءے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اسمائے مبارکہ ،صحابۂ کرام وتابعین عظام اور اولیاءے کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے مبارک ناموں پر نام رکھے جائیں ، اس کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ بچوں کااپنے اسلاف سے روحانی تعلق قائم ہو گا اور دوسرا ان نیک ہستیوں سے موسوم ہونے کی برکت سے ان کی زندگی پر مدنی اثرات مرتب ہوں گے،نیزکل بروزقیامت اُنہیں اِن مبارک ناموں سے پکاراجائے گا۔ اِنْ شَآءَ اللہ 1
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پسندیدہ نام:
تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’تمہارے ناموں میں سے اللہ1کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبد اللہ اور عبدالرحمٰن ہیں۔‘‘(1)
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1197 صَفحات پر مشتمل کتاب ،’’بہارِ شریعت‘‘ جلد سوم صَفْحَہ601 پر صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی مذکورہ
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
(1)…صحیح مسلم ، کتاب الآداب ،باب بیان ما یستحب من الاسماء، الحدیث ۲۱۳۲،ص۱۱۷۸