حضرت سیدتنا خدیجۃُ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے گھر تشریف فرما تھے۔میں نے داخل ہونے کی اجازت طلب کی،مجھ پر نظر پڑتے ہی آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مسکراتے ہوئے ار شاد فرمایا: ’’میں ایک خوش نصیب چہرے کو دیکھ رہا ہوں اور اس کے لئے مجھے خیر ہی کی امیدہے۔‘‘پھراستفسار فرمایا:’’یہاں آنے سے قبل تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوا اے ابومحمد؟‘‘ میں نے عرض کی یہ تو آپ ارشادفرمائیے کہ کیا معاملہ ہے؟آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے (غیب کی خبر دیتے ہوئے) ارشاد فرمایا:’’تمہارے پاس میرے لئے ایک امانت ہے‘‘یا ارشاد فرمایا: ’’کسی نے تمہارے ہاتھ میرے لیے ایک پیغام بھیجاہے،جلدی سے مجھے بتاؤ کیونکہ وہ (پیغام بھیجنے والا) حِمْیَر کا رہنے والا اور خواص مومنین سے ہے۔‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا یہ پیار بھرا انداز (اور معجزۂ غیب دانی) دیکھ کر میں فوراً مسلمان ہو گیا ۔ پھر میں نے اپنے بوڑھے حِمْیَرِی میزبان کے (والہانہ جذبات کی عکاسی کرنے والے) عقیدت سے بھرپور اشعار حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو سنائے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’کئی لوگ ایسے ہیں جومجھ پر بِن دیکھے ایمان لاتے ہیں اور میری رسالت کی تصدیق بھی کرتے ہیں ،یہ تمام لوگ میرے سچے بھائی ہیں۔‘‘ (۱)
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
(۱)…تاریخ مدینۃ دمشق، الرقم ۳۹۱۱ عبدالرَّحمٰن بن عوف، ج۳۵، ص۲۵۰ تا ۲۵۲ ملتقطاً