میرا یامیرے والد کا جب بھی یمن جانا ہوتا تو ہم عَسْکَلَان بِنْ عَوَاکِن حِمْیَرِی کےپاس ٹھہرتے جو ایک جہاں دیدہ اور صاحبِ فراست شخص تھا، میں جب بھی جاتا وہ مکۂ مکرمہ، کعبۂ مُشرفہ اور زمزم شریف کے بارے میں پوچھاکرتا اور یہ سوال بھی ہمیشہ پوچھتا کہ کیا تمہارے ہاں کسی ایسے شخص کا ظہور ہوا ہے جس کا چرچابہت زیادہ ہو؟ یا کسی نے تمہارے دین کی مخالفت تو نہیں کی؟ مگر ہر بار میں نفی میں جواب دیتا اور قریش کے دیگرمختلف اشراف کا ذکر کرتا یہاں تک کہ جب میں سیِّد عالَم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بعثت کے سال عَسْکَلَان بِنْ عَوَاکِن حِمْیَرِی کےپاس یمن پہنچا تو وہ بہت لاغر و کمزور ہو چکا تھا اور اس کی قوتِ سماعت و بینائی بھی متاثر ہو چکی تھی، آنکھوں پر پٹی بندھی ہونے کے سبب اس نے مجھ سے تعارف کے لئے میرا نسب نامہ پوچھا۔میں نے نسب بتاناشروع کیاتو وہ فوراً مجھے پہچان گیااور کہنے لگا : اے معزز زہری مہمان! بس یہی کافی ہے۔ پھر کہنے لگا: کیا میں تم کو ایک ایسی عجیب وغریب اور اچھی خبر نہ دوں جو تمہارے لئے تجارت سے زیادہ نفع مند ہو؟ میرے ’’ہاں ‘‘کہنے پروہ کچھ یوں گویا ہوا: ’’گزشتہ ماہ تمہاری قوم میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ایک ایسا نبی مبعوث فرمایا ہے جسے اس نے مقامِ مصطفےٰ ومرتضیٰ پرفائز کیاہے، اس پر کتاب نازل فرمائی