گانے سنا کراپنے نامہ اعمال سیاہ کرتا، جب لوگ مجھے مشہور سنگر کے نام سے پکارتے تو میں خوشی سے پھول جاتا۔
نیز اسکول میں بھی گانے گاتا توطلبہ اور میری کلاس کے ٹیچر بہت خوش ہوتے مجھے داد دیتے۔ میرا شوق دیکھ کر ایک ٹیچرتو مجھے بڑاسنگر بننے کے سپنے دکھانے لگا ، یوں بچپن ہی سے بڑا سنگر بن کر بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے کا عفریت سر پرسوار ہوگیااو رمیں نے یہ ٹھان لی کہ بس مجھے بڑاسنگر بن کر نام کمانا ہے دنیا میں اپنی پہچان قائم کرنی ہے، اب تو مجھے ہروقت یہ فکر لاحق رہتی کہ کس طرح میرا یہ خواب پورا ہوگا میں کب بڑا سنگر بن کر نام اور مال کماؤں گا، اس خواب کو شرمندہ تعبیر دیکھنے کے لیے ہروقت گانے گاتا اور انہیں زبانی یاد کرتا۔
الغرض اسی سوچ وفکر میں میرا وقت پاس ہورہاتھا، آخردن رات کی کوششوں کی بدولت ایک سرکاری چینل پر میری سلیکشن ہونے ہی والی تھی کہ مجھ پر کرم ہوگیااور میں گناہوں کی دلدل میں دھنسنے سے بال بال بچ گیا ہواکچھ اس طرح ہے کہ ایک بار میری ملاقات سنتوں کے پیکر ایک مبلغِ دعوتِ اسلامی سے ہوگئی۔ جنہوں نے مجھے دعوتِ اسلامی کے تحت ہونے والے اجتماعی اعتکاف میں شرکت کی دعوت نہایت احسن انداز میں پیش کی، مبلغِ دعوتِ اسلامی کے اس دلنشین انداز کو دیکھ کر میں نے اجتماعی اعتکاف میں شرکت کرنے کی ہامی بھرلی اور