کے پرکیف مناظر بہت اچھے لگتے، مزید افطار کے وقت مناجات کا سلسلہ ہوتاتو معتکفین پر ایک رقت طاری ہوجاتی، الغرض جوں جوں دن گزرتے گئے میرے دل پر چھائے غفلت کے بادل چھٹتے گئے، میں نے سدھرنے کا ارادہ کرلیا۔ عاشقان رسول کی چند روزہ صحبت کی برکت سے میں نے بدعملی سے ناطہ توڑ لیا، سنّتوں سے رشتہ جوڑ لیا، نمازوں کا پابند بن گیااور سنّتیں اپنانے کا شوق دل میں پیدا ہوگیا، چنانچہ میں نے اپنے برہنہ سر کو سبز سبز عمامے شریف کے تاج سے سجالیا نیزشیخ طریقت،امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکی غلامی کا پٹہ گلے میں ڈال لیا۔ مزید علمِ دین کے فضائل سنے تو نور ِعلم دین سے روشن ہونے کا مدنی ذہن بن گیا، اجتماعی اعتکاف کے بعد جب میں گھر لوٹا تو میری زندگی یکسر بدل چکی تھی، میں راہِ سنّت کا مسافربن چکاتھا، میں نے جلدہی دعوتِ اسلامی کے جامعۃ المدینہ میں داخلہ لے لیا اوردل جمعی سے اپنا خالی دامن علم کے انمول موتیوں سے بھرنے میں مشغول ہوگیا ۔اسی دوران امیرِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے عطاکردہ مدنی مقصد ’’مجھے اپنی اور ساری دنیاکے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے ‘‘کے تحت بارہ ماہ کے مدنی قافلہ کا مسافربن کر سنّتیں سیکھنے سکھانے میں مشغول ہوگیا۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا ہے کہ مجھے راہ ِسنّت پر استقامت عطافرمائے ۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد