میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مذکورہ آیتِ کریمہ میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاور فِرِشتوں کے دُرُود بھیجنے کا ذِکر کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی دُرُودوسلام بھیجنے کا حکم دیاگیا۔ یہ بات ذِہن نشین رہے کہ اگرچہ ایک ہی لَفْظ کی نِسبت اللّٰہ تعالیٰ، فِرِشتوں اورمُومنین کی طرف کی گئی ہے لیکن مَنسُوب اِلیہ کے اِعتبار سے اسکا معنی مختلف ہے۔ چنانچہ امام بَغَوِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ القوی فرماتے ہیں :’’اللّٰہ(عَزَّوَجَلَّ)کا دُرُود ہے رَحمت نازِل فرمانا، جبکہ فِرِشتوں کا اور ہمارا دُرُود دُعائے رَحمت کرنا ہے۔‘‘ (شرح السنۃ للامام بغوی، کتاب الصلاۃ ،باب الصلاۃ علی النبی،۲/ ۲۸۰)
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّنے مذکورہ آیتِ مُبارکہ میں یہ خبر دی ہے کہ ہم ہر آن اور ہر گھڑی اپنے پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر رَحمتوں کی بارِش برساتے ہیں ۔ یہاں ایک سُوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللّٰ ہی رَحمتیں نازِل فرمارہا ہے تو ہمیں دُرُود شریف پڑھنے یعنی رَحمت کے لیے دُعا مانگنے کاکیوں حُکم دیا جارہا ہے، کیونکہ مانگی وہ چیز جاتی ہے جو پہلے سے حاصل نہ ہو، تو جب پہلے ہی سے رَحمتیں اُتر رہی ہیں ، پھر مانگنے کا حُکم کیوں دیا؟
اِس کا جَواب یہ ہے کہ کوئی سُوالی کسی دَروازے پر مانگنے جاتا ہے تو گھر والے کے مال و اَولاد کے حق میں دُعائیں مانگتا ہوا جاتاہے، سَخی کے بچے زِندہ رہیں ،مال سلامت رہے، گھر آباد رہے وغیرہ وغیرہ۔ جب یہ دُعائیں مالکِ مکان سنتا ہے تو سمجھ جاتا ہے کہ یہ بڑ امُہَذَّب سُوالی ہے، بھِیک مانگنا چاہتا ہے مگر