Brailvi Books

روزے کے اہم مسائل
8 - 33
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ  حِیْم
اَلْجَوَاب بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّاب  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَا لصَّوَاب
	ضرورت کے موقع پر خون دینا جائز ہے مثلاًایسا مریض جس کو اگر خون نہ دیا گیا تو وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا تو ایسی صورت میں خون دینا جائز ہے اور اسی طرح کسی قسم کی ضرورت کے لیے روزہ دار کے جسم سے خون نکالنا بلا کراہت جائز ہے اور اس عمل سے روزہ نہیں جائے گا مگر اتنی مقدار میں خون نکالنا جوکہ کمزوری کا باعث ہو مکروہ ہے ۔اسکی نظیرسینگی لگوانا ہے ۔
	فتاویٰ عالمگیری میں ہے:”ولا بأس بالحجامۃ ان امن علی نفسہ الضعف، امّا اذا خاف فانّہ یکرہ و ینبغی لہ ان یؤ خّر الی وقت الغروب وذکر شیخ الاسلام شرط الکراھۃ ضعف یحتاج فیہ الی الفطر والفصد نظیر الحجامۃ ھکذا فی المحیط ۔“ یعنی اگر کمزوری کا خوف نہ ہو تو سینگی لگوانے میں کوئی حرج نہیں اور اگر کمزوری کا خوف ہو تو مکروہ ہے اسکو چاہیے کہ اسے غروبِ آفتاب تک مؤخر کردے۔شیخ الاسلام نے ذکر فرمایا کہ کراہت کی شرط ایسی کمزوری ہے کہ جس کی وجہ سے روزه توڑنے کی حاجت پیش آجائے اور فصد کھلوانا سینگی لگوانے کے مثل ہی ہے، اسی طرح محیط میں ہے۔(1)
وَاللہُ اَعْلَم عَزَّ  وَجَلَّ وَرَسُوْلُہ ٗ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
عبدہ المذنب فضیل رضا العطاری عفی عنہ الباری
01شعبان المعظم1431ھ14جولائی2010ء
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
… فتاوی ہندیۃ، کتاب الصوم، الباب الثالث فیما یکرہ للصائم وما لایکرہ، ۱/۱۹۹-۲۰۰.