حاملہ عورت کیلئے روزہ کا حکم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہاگر کوئی عورت حمل سے ہو اورآٹھواں یا نواں مہینہ چل رہا ہو تو ایسی عورت رمضان کے روزے چھوڑ سکتی ہے یا نہیں ؟ سائل:عقیل احمد
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم
اَلْجَوَاب بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّاب اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَا لصَّوَاب
عورت کو حمل ہونے کی حالت میں اگر روزہ رکھنے سےاپنی یا بچہ کی جان پرنقصان پہنچنے کا صحیح اندیشہ ہو تو اس صورت میں وہ رمضان کا روزہ چھوڑ کر بعد میں قضا کرسکتی ہے ورنہ نہیں چھوڑ سکتی۔
صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’حمل والی اور دودھ پلانے والی کو اگر اپنی جان یا بچہ کا صحیح اندیشہ ہے تو اجازت ہے کہ اس وقت روزہ نہ رکھے خواہ دودھ پلانے والی بچہ کی ماں ہو یا دائی اگرچہ رمضان میں دودھ پلانے کی نوکری کی ہو۔“ (1)
واضح رہے کہ نقصان کا اندیشہ ہونے یا نہ ہونے کے لئے غالب گمان کا ہونا ضروری ہےمحض وہم کا ہونا کافی نہیں ۔جیسا کہ صدر الشریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :’’ان صورتوں میں غالب گمان کی قید ہے محض وہم ناکافی ہے۔ غالب گمان کی تین صورتیں ہیں : (1) اس کی ظاہر نشانی پائی جاتی ہے یا (2) اس شخص کا ذاتی تجربہ ہے یا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
… بہارِ شریعت،حصہ پنجم، سحری وافطاری کا بیان،۱/۱۰۰۳.