روزے کے اہم مسائل
نوکری کی وجہ سےرمضان کا فرض روزہ چھوڑنا
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عمرو ایک صحت مند آدمی ہے وہ رمضانُ المبارک کے روزے نہیں رکھتا اور کہتا ہے کہ میرا عذر ہے اور عذر یہ ہے کہ میں روزہ رکھ کر مزدوری نہیں کر سکتا،وہ شخص سرِعام کھاتا پیتا ہے اُسے منع کیا جائے تو کہتا ہے کہ میں جانوں اور میرا رب جانےبخشنا تو اللہ نے ہے۔شریعت میں ایسے بندے کے بارے میں کیا حکم ہے؟سائل:حافظ محمد عمیر(افشاں پارک ،مرکزالاولیاء، لاہور)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم
اَلْجَوَاب بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّاب اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَا لصَّوَاب
اگر صورتِ حال واقعی ہے تو عمرو فاسق و فاجر اور مرتکبِ حرام ہے کیونکہ روزہ اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے بلاوجہِ شرعی اس کو ترک کرنا ناجائز وگناہ ہے ،اور یہ کوئی عذر نہیں کہ میں نے روزی کمانی ہوتی ہے بلکہ حکم یہ ہے کہ روزہ رکھ کر کام کیا جائے اوراگر کام کی وجہ سے روزہ رکھنے میں دشواری آتی ہے تو کام کی مقدار کم کرلینی چاہئے نہ کہ روزہ چھوڑدیا جائے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوۡنَ﴿۱۸۳﴾ۙ(پ۲، البقرة:۱۸۳)
تَرْجَمَۂ کنز الایمان :اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے ۔