صلاح بدنہ لجوفہ۔“ یعنی روزہ ٹوٹنے کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ جس چیز میں بدن کی صلاح ہواس کا روزہ دار کے پیٹ میں پہنچنا۔
ردّالمحتار میں نہر الفائق کے حوالے سے ہے:”والذی ذکرہ المحقّقون انّ معنی الفطر وصول ما فیہ صلاح البدن الی الجوف اعمّ من کونہ غذاء او دواء یقابل القول الاوّل، ھذا ھو المناسب فی تحقیق محلّ الخلاف۔“یعنی وہ جو کہ محققین نے بیان کیا ہے کہ روزہ ٹوٹنے کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز میں بدن کی صلاح ہو اس کا پیٹ میں پہنچ جانا یہ عام ہے چاہے وہ غذا ہو یا دواہو۔یہ قول پہلے قول کے مقابل ہے یہی قول محلِ خلاف کی تحقیق میں مناسب ہے۔ (1)
درِّمختار میں روزہ نہ توڑنے والی چیزوں کے بیان میں ہے :”(او ادّھن او اکتحل اواحتجم) و ان وجد طعمہ فی حلقہ ۔“یعنی اگر روزہ دار نے سر میں تیل لگایا یا سرمہ لگایا یاپچھنے لگوائے اگرچہ تیل اور سرمہ کا ذائقہ اس نے حلق میں پایا ہویعنی اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔
”وان وجد طعمہ فی حلقہ“کے تحت ردّالمحتارمیں نہرالفائق کے حوالے سے ہے:”لأنّ الموجود فی حلقہ اثر داخل من المسام الذی ھو خلل البدن، والمفطر انّما ھو الداخل من المنافذ للاتّفاق علی انّ من اغتسل فی ماء فوجد بردہ فی باطنہ انّہ لا یفطر۔“ یعنی حلق میں جو ذائقہ پایا گیا ہے وہ مسام کے ذریعے داخل ہونے والا اثر ہے جو کہ خللِ بدن ہے اور روزہ کو توڑنے والی وہ چیز ہے جو منافذ کے ذریعے معدے تک
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
… در مختار ورد المحتار، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، ۳/۴۴۳.