’’استقامت کا پہاڑ‘‘ بن گئے،اورزبان حال سے گویااس بات کا عہد کیا کہ: ’’راہ خدا عَزَّ وَجَلَّ میں اسلام پرقائم رہنے کے لیے اگراپنے جسم کے ہزاروں ٹکڑے بھی کروانے پڑے توضرور کروائیں گے مگردین اسلام کو ہرگزنہ چھوڑیں گے۔‘‘
جب مارمارکروہ تھک گیااوراسے یقین ہوگیا کہ ان پرکوئی اثرہونے والا نہیں تو ایک تخت پربیٹھ گیا۔ وہاں موجود قرآنی صحیفوں کو دیکھ کرکہنے لگا:’’یہ کیا ہے؟‘‘ بہن نے کہا:’’یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکاکلام’’قرآن مجید‘‘ہے،تم ناپاک ہواسے ہاتھ نہیں لگاسکتے،ہاں غسل کرلو پھراسے چھو سکو گے۔‘‘اس نے غسل کیا اور پھر قرآن پاک کوہاتھوں میں لے کر کھولاتو سورۂ ’’طٰہٰ‘‘ سامنےآگئی،اسے پڑھنے لگاجیسے ہی اِس آیت کی تلاوت کی(اِنَّنِیۡۤ اَنَا اللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِیۡ ۙ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیۡ ﴿۱۴﴾) (ترجمۂ کنزالایمان:’’بیشک میں ہی ہوں اللہکہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لئے نماز قائم رکھ۔‘‘ پ ۱۶، طہ:۱۴) یہ پڑھنا تھا کہ پورے بدن پر ایک عجیب سی ہیبت طاری ہوگئی، دل کی دنیا زیر وزبرہوگئی، اور بالآخر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکراسلام قبول کر لیا۔(تاریخ الخلفاء،ص۱۱۱، السیرۃ النبویۃ ، اسلام عمر بن الخطاب، ج۱، ص۳۱۹ ، سیرت سید الانبیاء، ص ۱۰۳مفھوما)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد