تیری طاقت اور اپنے غلبے کے مقابلے میں تیرے غلبے کو ترجیح دیتا ہوں لہٰذااس رومی کی موت میرے ہاتھوں مقدر فرمااور اس پر مجھے اجر عطا فرما۔‘‘فرمایا: اے سعید !کیا تم نے اس کے ہتھیار اتارلئے تھے؟توآپ نے عرض کیا:نہیں لیکن میں نے ہی اسے قتل کیا ہے کیوں کہ میرے نیزے کی نوک اس کے دل میں ابھی تک پیوست ہےجسے میں نے ابتدا میں اس کے دل میں مارا تو وہ اندر ہی رہ گئی اور وہ زمین پر گرپڑا،میں نے فوراً اس کے اوپر جست لگائی اور اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کردیا۔
(فتوح الشام ،معرکۃ حمص ،ج۱،ص۱۴۷)
شہادت ہے مطلوب ومقصودِ مؤ من
مقام نجدہ میں حضرت سیدنا سعید بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاوران کے چند ساتھی موجود تھے۔بیس ہزار کی رومی فوج چاروں جانب سے مٹھی بھر مسلمانوں کا محاصرہ کرنے کے لئے بالکل تیا رتھی۔مسلمانوں کے سپہ سالار حضرت میسرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے صلوٰۃ الخوف پڑھائی اور پھرحمد و صلوٰۃ کے بعد فرمایا!اے مسلمانوں !اپنی جگہ پر ثابت قدم رہو،عنقریب ہمیں بڑی بڑی مصیبتیں آنے والی ہیں کیونکہ دشمنوں کی فوج چار جانب سے ہمیں گھیرنے کی تیاری کر رہی ہے جبکہ مسلمانوں کا لشکر ہم سے سات دن کی مسافت پرہے۔ حضرت سیدنا سعید بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کھڑے ہوکر