دولت سے محروم تھے،اسی وجہ سے یہ حضرات اُن کے فتنوں سے چھپ کرقرآن پاک کی تعلیم حاصل کر رہے تھے، قرآن پاک کی تلاوت کے بعداسے مخصوص جگہ پرچھپادیتے تاکہ دیگر لوگوں کی اس پر نظر نہ پڑے۔
دوسری طرف کفاراس بات پربڑے حیران وپریشان تھے کہ اسلام نہایت تیزی سے پھیل رہاہےاگرآج ہم نے اس کو روکنے کی کوشش نہ کی تویہ ہمارے گھروں میں بھی داخل ہوجائے گااورہمارےآباء واجدادکے دین کو ختم کر دے گا۔ان کے سردار نے کہا کہ اس کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ جس شخص نے اسلام کی ابتداء کی ہے اسے ہی ختم کردیا جائے۔یہ سن کر تمام لوگ کہنے لگے کہ اسلام کو پھیلانے والے(حضرت سیدنا) محمدبن عبداللہ(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) ہیں، لیکن(مَعَاذَ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ) انہیں شہید کرناآسان نہیں کیونکہ ان کا تعلق قریش سے ہے، اوران کی شہادت کے بعد قریش، بنوہاشم اور بنوزہرہ قبائل کے سارے لوگ ہمارے دشمن ہو جائیں گے۔ قریش کے اس سردار نے کہا :’’جو شخص یہ کام کرے گا میں اسے ایک سو سرخ اور سیاہ اونٹنیاں اور ایک ہزار اوقیہ چاندی دوں گا جس کا ہر اوقیہ چالیس درہم کا ہوگا۔‘‘
اچانک ایک رعب دار چہرے والاشخص کھڑاہوااوراس نے کہا: ’’یہ کام میں کروں گا۔‘‘ تمام لوگ حیران ہوئے لیکن سب کویقین تھاکہ یہ اہم کام یہ