’’بدری‘‘ فرمایا۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اگرچہ ’’غزوۂ بدر‘‘ میں شریک نہ ہوسکے پھربھی آپ کا شمار ’’بدری صحابہ‘‘ میں ہوتا ہےاس کی دو وجوہات ہیں:
(۱) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت سیدناطلحہ بن عبید اللہاورحضرت سیدناسعیدبن زیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو شام کی طرف کفارکی جاسوسی کے لیے بھیجا تھا جب یہ دونوں وہاں سے مدینہ منورہ واپس لوٹے تو’’غزوۂ بدر‘‘واقع ہوچکا تھا۔( چونکہ جنگی جاسوسی بھی جنگ ہی میں شرکت ہے اسی لیے ان دونوں صحابیوں رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکو’’بدری‘‘ فرمایا گیاہے)
(الریاض النضرۃ ،ج ۲،ص۳۴۱)
(۲)سرکارمدینہ ،راحت قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں مالِ غنیمت میں سے ان کا حصہ عطافرمایا،اوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بدری ہیں اگروہ بدری نہ ہوتے توانہیں ان کا حصہ نہ دیاجاتا۔چنانچہ، حضرت سیدناعروہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے غزوۂ بدرسے لوٹنے کے بعد جب حضرت سیدنا سعید بن زیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ملک شام سے واپس آئے تواللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےانہیں مالِ غنیمت میں سے اُن کا حصہ عطا فرمایا توآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے استفسار کیا: ’’یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !میرا اَجر؟‘‘ ارشاد فرمایا: