پیشِ لفظ
انسان کا مقصدِحیات، ربِّ کائنات کی عبادت کے ذریعے اس کی رضائے دائمی کا حصول ہے ، جو اس مقصد میں کامیاب ہو گیا وہی حقیقی کامیاب ہے ۔مُحسِنِ کائنات، شاہ ِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم انسانوں کی رُشد وہدایت کے لئے دنیامیں جلوہ گر ہوئے۔ آپ کے افعال واقوال راہِ حق کے مُتلاشیوں کے لئے نورِہدایت ہیں۔ فرمانِ خدا وندی ہے :
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوْا اللہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللہَ کَثِیْرًا (پ۲۱، الاحزاب:۲۱)
ترجمۂ کنز الایمان :بیشک تمہیں رَسُوْلُ اللہ کی پیروی بہتر ہے اس کے لئے کہ اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے
صَدرُ ا لا فاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سَیِّدمحمد نعیم ُالدین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِیاس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’(یعنی )ان کا اچھی طرح اِتّباع کرو اور دینِ الٰہی کی مدد کرو اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ساتھ نہ چھوڑو اور مصائب پر صبر کرو اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنّتوں پر چلو یہ بہتر ہے ۔‘‘
فرمانِ مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے:’’مَنْ اَحَبَّ سُنَّتِی فَقَدْ اَحَبَّنِی وَمَنْ اَحَبَّنِی کَانَ مَعِیَ فِی الْجَنَّۃِ۔‘‘(ابن عساکر،۹/۳۴۳) ترجمہ :جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:’’ جس نے میری امت کے بگڑتے وقت میری سنت کو مضبوط تھاما تو اسے سو شہیدوں کا ثواب ہے۔‘‘(مشکوۃ المصابیح ،کتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،۱/۵۵،حدیث:۱۷۶)
بزرگانِ دین رَحِمَھُمُ اللہُ الْمُبِیْن نے مصطفیٰ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنتوں پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت کی بھلائیاں حاصل کیں اور اصلاحِ اُمت کے عظیم جذبے کے تحت اپنے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی زندگی کے ہر ہر پہلو کو عملی وتحریری طور پر لوگوں کے سامنے لائے تاکہ ان اَخلاقِ کریمہ کو اپنا کر ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّکی رضا حاصل کی جائے ۔