وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجْہَہٗ ؕ
ترجمہ کنزالایمان: اور دور نہ کرو انہیں جو اپنے رب کو پکارتے ہیں صبح و شام اسکی رضا چاہتے (پارہ ۷ 'سورہ انعام 'آیت ۵۲)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یہاں ارادے سے مراد نِیّت ہی ہے جیسا کہ نبی اکرم ، شاہ بنی آدم ، نور مجسم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
''اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَ لِکُلِّ امْرِیءٍ مَا نَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلٰی اللہِ وَ رَسُوْلِہٖ فَھِجْرَتُہٗ اِلٰی اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَ مَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلٰی دُنْیَا یُصِیْبُہَا اَوِ امْراَۃٍ یَنْکِحُہَا فَھِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ''
ترجمہ : ''اعمال (کے ثواب) کا دارو مدار نِیّت پر ہے اور ہرشخص کیلئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نِیّت کی پس جس کی ہجرت اللہ عزوجل اور اسکے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی طرف ہو تو اسکی ہجرت اللہ عزوجل اور اسکے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی طرف ہوگی اور جسکی ہجرت دنیا کی طرف ہوکہ اسے حاصل کرنا مقصود ہو یا کسی عورت کی طرف کہ اس سے نکاح کرنا چاہے تو وہ جس کی طرف ہجرت کریگا اس کی ہجرت اسی طرف شمار ہوگی''۔ (صحیح بخاری ج اول ص ۲، کیف کان بدأ الوحی)
ایک اور مقام پر پیارے آقا میٹھے میٹھے مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشا فرمایا: