فیضانِ اِحیاءُ العُلوم |
ہیں جن کے عمل میں اخلاص نہیں ہے اور پھر مخلص لوگوں کیلئے بھی بہت بڑا خطرہ ہے کہ اچھی نِیّت کے بغیر عمل کرنا صرف مشَقت ہے اور اخلاص کے بغیر نِیّت کرنا ریا کاری ہے اور اتنی ہی بات منافق بنانے کیلئے کافی اور گناہ ہے۔ کیونکہ صدق کے بغیر اعمال محض گردو غبار کے ذرات ہیں۔ یعنی ہر وہ عمل جو کسی اورکو خوش کرنے کیلئے کیا جائے اور اللہ (عزوجل) کو راضی کرنے کی نِیّت نہ ہوتو اس بارے میں قرآن پاک میں رب تعالیٰ کا فرمان عبرت نشا ن ہے ۔
وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰی مَا عَمِلُوۡا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰہُ ہَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا ﴿۲۳﴾
ترجمہ کنزالایمان : ''انہوں نے کام کئے تھے ہم نے قصد فرما کر انہیں باریک باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذرے کر دیا کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں'' (پارہ ۱۹،سورہ فرقان، آیت۲۳) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جو شخص نِیّت کی حقیقت سے واقف نہ ہو اسکی نِیّت کیسے صحیح ہوسکتی ۔ یا جو شخص اخلاص کی حقیقت نہ جانتا ہو وہ نِیّت کو صحیح کرنے میں کیسے مخلص ہو گا یا وہ شخص جو صداقت کے معنٰی نہ جانتا ہو وہ اپنے نفس سے کیسے صدق کا مطالبہ کریگا۔ لہٰذا جو شخص اللہ(عزوجل)کی اطاعت کا ارادہ رکھے اسے چاہئے کہ سب سے پہلے نِیّت کے بارے میں معلومات حاصل کرے ، پھر صدق و اخلاص کی حقیقت سے آگاہ ہو اور عمل کے ذریعے نِیّت کو صحیح کرے۔ کیونکہ بندے کی نجات اور چھٹکارے کا وسیلہ دوہی باتیں ہیں یعنی ـ'' اخلاص اور صدق'' لہٰذا ہم صدق اور اخلاص کے معانی کو تین ابواب میں ذکر کریں گے۔
پہلا باب نِیّت کی حقیقت اور معنی دوسرا باب اخلاص اور اسکے حقائق تیسرا باب صدق اور اسکی حقیقت