فیضانِ اِحیاءُ العُلوم |
کی شکل میں نیک صحبت میسّر ہے ۔اب اگر ضرورت ہے تو صرف اس امر کی کہ استقامت کے ساتھ اِس مَدَنی ماحول میں رہتے ہوئے اپنی نیت کو دُرست کرکے نیک اعمال کئے جائیں ۔اﷲعزوجل ہمیں مَدَنی ماحول میں استقامت اور اِخلاصِ نیت عطا فرمائے اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ۔
نِیّت و اخلاص کا بیان:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! یقیناہم پر اللہ (عزوجل ) کے بے شمار احسانات ہیں اور اسکی بے شمار نعمتیں ہم پر ہمہ وقت سایہ فگن رہتی ہیں چنانچہ اس باب میں نیت و اخلاص کی ماہیت اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے اس لئے حضرت سیدنا امام غزالی علیہ الرحمہ ان نعمتوں کاشکر کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ شکر کے ساتھ ساتھ اخلاص نیت کی طرف بھی اشارہ ہو جائے اور اس طرح رسم براعت استہلال بھی بطریق احسن ادا ہوجائے اس لئے فرماتے ہیں۔ ہم شکر گزار بندوں کی طرح اسکی تعریف کرتے ہیں اور اہل یقین کی طرح اس پر ایمان لاتے ہیں اور سچّے لوگوں کی طرح اسکی توحید کا اقرار کرتے ہیں ۔ پھر ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تمام جہانوں کا پالنے والا ہے آسمانوں اور زمینوں کا خالق ہے ۔ اس نے تمام انسانوں ، جنات اور فرشتوں کو اپنے احکام کا پابند بنایا تاکہ وہ خلوص کے ساتھ اسکی عبادت کریں۔ چنانچہ رب اکبر (عزوجل) کا ارشادِ گِرامِی قَدْر ہے:
وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ
ترجمہ کنزالایمان: ''اور ان لوگوں کو تو یہی حکم ہوا کہ اللہ کی بندگی کریں نرے اسی پر عقیدہ لاتے'' (پارہ ۳۰' سورہ بینہ' آیت ۵) معلوم ہوا کہ دین اللہ جل شانہ ہی کیلئے خالص ہے ۔اللہ (عزوجل) شرک کرنے والوں کے شرک سے بے نیاز ہے ۔ اور شہنشاہ ابرار، شفیع روز شمار،جنابِ احمدِ مختارصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم پر اسکی کروڑہا کروڑ رحمتیں ہوں جو تمام انبیاء کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام کے سردار ہیں نیز آقائے دو جہاں ، رحمت عالمیاں صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی مقدس آل وا صحاب علیھم الرضوان پر خوب خوب رحمتیں ہوں جو کہ ظاہری و باطنی طور پر پاکیزہ ہیں۔ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اہل دل لوگوں پر ایمانی بصیرت اور انوار قرآن کے سبب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ دوجہاں کی سعادتیں حاصل کرنے کیلئے علم اور عبادت دونوں ہی ضروری ہیں۔ چنانچہ علماء کے علاوہ تمام لوگ ہلاک ہونے والے ہیں اور پھر تمام علماء میں سے بھی بے عمل و بدکار علما ء سوء ہلاک ہونے والے ہیں اور باعمل علماء میں بھی وہ لوگ ہلاک ہونے والے
ہے حالانکہ پہلے کا مقصد بھی معدے کو درست کرنا ہی ہے لہٰذا نیکیوں کی تاثیر کو بھی اسی طرح سمجھنا چاہئیے کہ نیکیوں کا مقصد دل کو بدلنا اور دل کی صفات میں تبدیلی لانا مقصود ہوتا ہے اعضاء میں تبدیلی مقصود نہیں ہوتی۔ دیکھئے سجدہ کرتے وقت پیشانی کو زمین پہ رکھنے کی غرض یہ نہیں ہے کہ زمین اور پیشانی دونوں کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے بلکہ غرض یہ ہے کہ دل میں تواضع کی صفت کو پختہ کیا جائے تو جب بندہ کو اعضاء کو تواضع کی شکل دے تو اسکا دل بھی اس سے متأثر ہو کر تواضع اختیار کرتا ہے ۔ اور جس آدمی کے دل میں یتیم بچے پر نرمی کرنے کی صفت موجود ہو تو جب وہ اس بچے کے سرپر شفقت سے ہاتھ پھیرتا یا اسے بوسہ دیتا ہے تو دل میں پائی جانے والی نرمی مزید پختہ ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے نِیّت کے بغیر کے عمل بالکل فائدہ نہیں دیتا کیونکہ جو شخص یتیم بچے کے سر پر ہاتھ پھیر لے لیکن اس کا دل اس سے غافل ہو یا اپنے خیال میں وہ کسی کپڑے پر ہاتھ پھیر رہا ہے اس کے اعضاء کا اثر دل تک نہیں پہنچے گا اور نہ اسکے دل میں کوئی مثبت تبدیلی پیدا کر سکے گا اسی طرح جو شخص غفلت میں عالم میں سجدہ کرتا ہے تو اسکی پیشانی زمین پہ رکھنے سے دل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اس لئے اسکا سجدہ کرنا یا نہ کرنا برابر ہے اور مقصد کے اعتبار سے جس عمل کا کرنا یا نہ کرنا برابر ہو وہ باطل ہوتا ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ نِیّت کے بغیر عبادت باطل ہے اور جب غفلت سے کرے تو یہی کیفیت ہوتی ہے اور جب عبادت سے دکھاوا یا کسی دوسرے شخص کی تعظیم مقصود ہو تو اسکا ناصرف یہ کہ ثواب نہیں ملتا الٹا گناہ سر پڑتا ہے اور یہ ریا کاری دراصل دنیا کی طرف جھکاؤ کی ایک صورت ہے اس اعتبار سے نِیّت عمل سے بہتر ہے اور اسی بات سے نبیوں کے سالار، سرکار ذی وقار، شافع روز شمار (علیٰ نبینا و علیہم الصلوٰۃ والسلام) کہ اس فرمان ثمر بار کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ: