انہوں نے فوراً جواب دیا: ”نَعَمْ! رَبِّیْ وَرَبُّکَ اللہُ ہاں! میرا اور تیرا ربّ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہے۔“ اس پر فرعون (اور زیادہ بھڑک اُٹھا اور اس) نے تانبے کا ایک بہت بڑا برتن (تیل سے بھر کر) گرم کرنے کا حکم دیا۔ پھر اس نے ان کے بچوں کو ایک ایک کر کے اس برتن میں ڈالنا شروع کر دیا حتی کہ جب آخری دودھ پیتا بچہ ہی رہ گیا تو گویا اس کی وجہ سے وہ مؤمِنَہ خاتون کچھ پیچھے ہٹیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے بچے کو قوتِ گویائی (بولنے کی طاقت) عطا فرمائی اور اس نے پُکار کر کہا: ”یَا اُمَّہ! اِقْتَحِمِیْ فَاِنَّ عَذَابَ الدُّنْیَا اَھْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَۃ اے ماں! پرواہ نہ کر...!! بےشک دنیا کی تکلیف آخرت کے عذاب کے مُقَابَلے میں بہت آسان ہے۔“(1) پھر انہیں بھی اس برتن میں ڈال کر شہید کر دیا گیا۔ مروی ہے کہ جس وَقْت انہیں اَذِیتیں دے کر شہید کیا جا رہا تھا، فرعون کی بیوی بھی انہیں دیکھ رہی تھیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ان کی آنکھوں سے غیب کے پردے اُٹھا دئیے، ان کی بصیرت روشن فرما دی اور انہوں نے فرشتوں کو ان کی روح آسمان کی طرف لے جاتے دیکھ لیا۔ فرشتوں کو دیکھنے سے ان کا ایمان مزید پختہ ہوا اور حضرت سیِّدنا موسیٰ کَلِیْمُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صَدَاقَت وحَقَّانِیَّت کا یقین بھی بڑھا۔(2) نیز یہ اس سوچ میں پڑ گئیں کہ میں اپنے سامنے مؤمِنوں پر فرعون کے مظالم ہوتے کیسے دیکھ سکتی ہوں حالانکہ میں خود بھی مؤمِن
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
...معجم كبير، مسند ابن عباس، سعيد بن جبير عن ابن عباس، ٦/١٢، حديث:١٢١١٣.
صحيح ابن حبان، کتاب الجنائز، ذكر ما يجب على المرء من الثبات...الخ، ص٨٢٧، حديث:٢٩٠٣، باختلاف بعض الالفاظ
2...الكامل فى التاريخ، قصة موسى عليه السلام ونسبه...الخ، ١/١٤١