سیِّدنا موسیٰ کَلِیْمُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی نَبَوِی جاہ وجلال کے ساتھ تشریف لا چکے ہیں، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام كا عزم واستقلال قابِل دید ہے، مُبَارَک چہرہ ایمان وایقان کے انوار سے جگمگا رہا ہے۔ حق وباطِل کا عظیم ترین معرکہ اب بس شروع ہوا ہی چاہتا ہے کہ وسیع وعریض میدان میں پیکرِ عزم واستقلال کی صدائے حق گونج اٹھتی ہے، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایک بار پھر لوگوں کو دعوتِ حق دیتے ہیں کہ
وَ یۡلَکُمْ لَا تَفْتَرُوۡا عَلَی اللہِ کَذِبًا فَیُسْحِتَکُمْ بِعَذَابٍ ۚ وَقَدْخَابَ مَنِ افْتَرٰی ﴿۶۱﴾
(پ١٦، طٰهٰ:٦١)ترجمۂ کنزالایمان: تمہیں خرابی ہو اللہ پر جھوٹ نہ باندھو کہ وہ تمہیں عذاب سے ہلاک کر دے اور بےشک نامراد رہا جس نے جھوٹ باندھا۔
لیکن وہ ہٹ دھرمی کا مُظَاہَرہ کرتے ہوئے اپنے کفر وسرکشی پر اڑے رہتے ہیں۔ مُقَابَلے کا آغاز ہوتا ہے: ”جادوگر فرعون کی عزت کی قسم کھا کر اپنے جادو کی لاٹھیاں اور رسیاں پھینکتے ہیں تو ایک دم وہ سانپ بن کر پورے میدان میں ہر طرف پھنکاریں مار کر دوڑنے لگتیں ہیں۔ پورا مجمع خوف وہِراس میں بدحواس ہو کر ادھر ادھر بھاگنے لگتا ہے۔ فرعون اور اس کے جادوگر اپنی فتح کے گھمنڈ اور غرور کے نشے میں بدمست ہو جاتے ہیں اور جوشِ شادمانی سے تالیاں بجا بجا کر اپنی مَسَرَّت کا اِظْہَار کرنے لگتے ہیں کہ ناگہاں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خدا تعالیٰ کے حکم سے اپنی مقدس لاٹھی کو ان سانپوں کے ہجوم میں ڈال دیتے ہیں، لاٹھی ایک بہت بڑا اور نِہَایَت ہیبت ناک اژدہا بن کر آناً فاناً جادوگروں کے تمام سانپ نگل جاتی ہے۔ حق اور باطِل