کیا کرتی تھیں۔ اسی باعث بعض نے انہیں اُمُّ الْمَسَاکِیْن (مسکینوں کی ماں/پناہ گاہ) بھی کہا۔(1) چونکہ یہ بادشاہِ مصر وَلِیْد بن مُصْعَب جس کا لقب فرعون تھا، کی بیوی تھیں اس حیثیت سے انہیں مصر کی ملکہ ہونے کا اعزاز بھی حاصِل تھا۔
ملکۂ مصر کا شوہر
ان کی عادتوں کے بالکل بَرخِلَاف ان کا شوہر تھا۔ حکومت وسلطنت کی وُسْعَت، مال ودولت کی کثرت، عیش وعشرت کی فراوانی اور طاقت وقوت کے نشے نے اسے حد سے زیادہ مغرور اور بےلگام بنا دیا تھا۔ بنی اسرائیل کے ہزاروں نادار وبےبس لوگوں کو اس نے اپنا غلام بنا رکھا تھا اور ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سُلُوک کرتا، چوں کہ اس نے خدائی کا دعویٰ کر رکھا تھا اس لئے ہر کسی کو اپنا مملوک (یعنی زر خرید غلام) تَصَوُّر کرتا اور ان کے ساتھ ہر سُلُوک رَوا (درست) جانتا تھا۔ بہرحال دُنیوی اعتبار سے دونوں کی زندگی خوب آرام وسُکُون میں بسر ہو رہی تھی اور درد واَلَم کا دُور دُور تک نشان نہ تھا۔
صدائے حق
وَقْت یوں ہی گزرتا رہا، سال مہینوں میں، مہینے ہفتوں میں، ہفتےدنوں میں تبدیل ہو کر بیتتے گئے کہ عرصے بعد مصر کے صحرا دو۲ مردانِ حق کی صدائے ”لَآ اِلٰہَ
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
...تفسير بغوى، پ٢٠، القصص، تحت الآية:٩، ٣/٤٢٧.
مستدرك حاكم، كتاب تواريخ المتقدمين...الخ، باب ذكر موسى وهارون عليهما السلام، حديث:٤١٥٠، ٣/٤٥٧.