کرنے کے لئے بھی تیار ہو جاتا ہے۔ یہ عام انسان کی حالت ہے لیکن راہِ حق کے مُسَافِر کی زندگی اس سے بہت مختلف ہوتی ہے، دنیا کے فانی عیش وآرام اس کی نظر میں کچھ وَقْعَت نہیں رکھتے، اسے مصائب وآلام کی بھی پروا نہیں ہوتی کیونکہ اس کی نظر آخرت پر ہوتی ہے، وہ جانتا ہے کہ یہ عیش وآرام یا مصائب وآلام چند روزہ ہیں، بہت جلد یہ سب فنا ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا کے فانی عیش وآرام کے حُصُول یا مصائب وآلام سے چھٹکارے کے لئے اپنی آخرت داؤ پر نہیں لگاتا بلکہ اس راہ میں حائل تمام تر عیش وآرام ترک کر کے اور مصائب وآلام خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے صِرَاطِ مستقیم پر گامزن رہتا ہے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی دولت اسے ورغلا نہیں سکتی اور بڑی سے بڑی مصیبت اسے اس راہ سے ہٹا نہیں سکتی۔ تاریخ اس بات کی شاہِد ہے، کتنے ہی افراد ایسے ہو گزرے جو بادشاہت تک کو خاطِر میں نہ لائے کیونکہ یہ بادشاہت ان کے اُخْرَوِی نقصان کا سبب بن رہی تھی۔
مصر کی ملکہ
ہزاروں سال پہلے کا واقعہ ہے، مصر کی سرزمین میں ایسی ہی ایک نیک دل خاتون رہا کرتی تھیں۔ مال ودولت کی ان کے پاس کوئی کمی نہ تھی، ہر وَقْت خُدَّام خدمت کے لئے حاضِر اور حکم بجا لانے کےلئے تیار رہتے۔ ان پر ربّ تعالیٰ کا یہ بھی خاص کرم تھا کہ مال ودولت کی کثرت اور آرام وسُکُون کی فراوانی نے انہیں مغرور نہ بنایا تھا بلکہ ان کا دل غریبوں کی محبت سے سرشار اور ان پر شفقت ومہربانی کے جذبے سے مَعْمُور تھا چنانچہ یہ ان سے نرمی ومہربانی کا برتاؤ اور (دل کھول کر ان پر) صدقہ وخیرات