اس کے بھی درپے آزار ہو جاتے اور طرح طرح کی اذیتوں میں مبتلا کر کے، مصیبتوں میں گرفتار کر کے اِسْلَام سے برگشتہ کرنے کی کوششوں میں لگ جاتے؛ کسی کو صحرائے عرب کی تیز دھوپ میں جب کہ وہاں کی ریت کے ذَرَّات تَنُّور کی طرح گرم ہو جاتے، پشت کو کوڑوں کی مار سے زخمی کر کے اس جلتی ہوئی ریت پر پیٹھ کے بل لٹاتے اور سینے پر اتنا بھاری پتھر رکھ دیتے کہ کروٹ نہ بدلنے پائے، کسی کے جسم کو لوہے کی گرم سلاخوں سے داغتے، کسی کو پانی میں اس قدر ڈبکیاں دیتے کہ ان کا دم گھٹنے لگتا اور کسی کو چٹائی میں لپیٹ کر ناک میں دھواں دیتے جس سے سانس لینا مشکل ہو جاتا اور وہ کرب و بےچینی سے بدحواس ہو جاتا۔ غرض ایسے ایسے روح فرسا اور جاں سوز مظالم ڈھائے کہ اگر ان کی جگہ پہاڑ ہوتا تو شاید وہ ڈگمگانے لگتا لیکن قربان جائیے ان شَمْعِ رِسالت کے پروانوں پر کہ ان مَصَائِب وآلام سے گھبرا کر کسی ایک نے بھی بےصبری کا مُظَاہَرہ نہیں کیا، کسی ایک کے بھی پائے ثبات میں لَرْزِش نہیں آئی اور چاروں طرف سے کفر وطغیان کی تُند وتیز آندھیوں میں گھِرے ہوئے ہونے کے باوُجُود کسی ایک نے بھی اپنے ایمان کی شمع کو بجھنے نہ دیا۔ ان کے عزم واستقلال کو بیان کرتے ہوئے شیخ الحدیث حضرت علّامہ عبد المصطفیٰ اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: ”خدا کی قسم! شرابِ توحید کے ان مستوں نے اپنے استقلال واستقامت کا وہ منظر پیش کر دیا کہ پہاڑوں کی چوٹیاں سر اُٹھا اُٹھا کر حیرت کے ساتھ ان بلا کَشانِ اِسْلَام (اِسْلَام کی راہ میں مصیبتیں برداشت کرنے والوں) کے جذبۂ استقامت کا نظارہ کرتی رہیں۔ سنگ دل، بے رَحْم اور دَرِندہ صفت کافِروں نے ان غریب