Brailvi Books

فيضانِ حضرت آسیہ(رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا)
13 - 35
طالبِ رضائے حق
پیاری پیاری اسلامی بہنو! کفر وطغیان کی طاغوتی قوتوں کے سامنے کلمۂ حق کہہ کر حق کا پرچم لہرانا معمولی بات نہیں، بڑے دل گردے (ہمت وحوصلے) کا کام ہے۔ تاریخ اس امر کی شاہِد ہے کہ جب بھی کسی مردِ حق نے انسانیت کی ہِدَایَت اور فلاح وبہبود کے لئے اس امر کا بیڑا اُٹھایا تو باطِل کی وہ پُرشور قوتیں جو تخت وتاج کی مالِک تھیں، زمامِ اقتدار جن کے ہاتھوں میں تھی اور مال ودولت جن کے گھر کی باندی سمجھی جاتی تھی، طاقت وقوت کے نشے میں مخمور ہو کر اس کی مُخَالَفَت پر کمر بستہ ہو گئیں اور طرح طرح کی اذیتوں ومصیبتوں میں مبتلا کر کے اسے راہِ حق سے گمراہ کرنے کی پُرزور کوششیں کرنے لگیں، کبھی بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈالا تو کبھی کھولتے ہوئے تیل میں ڈال کر بھون ڈالا اور کبھی جسم کو آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر ڈالا، ان کے عِلاوہ ایسے ایسے جور وسِتَم ڈھائے کہ پہاڑ بھی ہوتے تو وحشت زدہ ہو جاتے  مگر بقول صَدْرُ الْاَفاضِل حضرت علّامہ مفتی سیِّد محمد نعیم الدِّین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی کے: ”طالِبِ رضائے حق، مولیٰ عَزَّ وَجَلَّ کی مرضی پر فِدا ہوتا ہے، اسی میں اس کے دل کا چین اور اس کی حقیقی تسلی ہے، کبھی وحشت، پریشانی اس کے پاس نہیں پھٹکتی، کبھی اس مصیبت عظمیٰ سے خَلَاصِی اور رِہَائی کے لئے وہ دُعا نہیں کرتا، انتظار کی ساعتیں شوق کے ساتھ گزارتا ہے اور وَقْتِ مَوْعُود کا بےچینی کے ساتھ منتظر رہتا ہے۔“(1)
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ 
...سوانح کربلا، ص۱۱۱