تکریم کا مستحق ہے نیز آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے فرزند میاں مراد بخش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو وصیت فرمائی : میرے انتقال کے بعد شمس الدین سیالوی سے بیعت کرنا اور ان سے فیضان حاصل کرنا۔چنانچہ بعد ازاں میاں مراد بخش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حضر ت خواجہ شمس الدین سیالوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے بیعت ہوئے۔(1)
حصولِ علم میں تکالیف پر صبر
حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ صبر و شکر کے پیکر تھے، جن دنوں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہحضرت مولانامحمد علی مکھڈوی چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پاس علمِ دین حاصل کر رہے تھے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےساتھ پڑھنے والے دیگر طلبہ مدرسہ میں کھانے پینے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے گھروں سے کھانا مانگ کر لایا کرتے تھے مگرآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایسا نہیں کرتے تھے اس لئے دیگر طلبہ آپ کو کھانے میں شریک نہیں ہونے دیتے تھے کہ یہ ہمارے ساتھ کھانا لانے کیوں نہیں جاتا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پر جب بھوک کا غلبہ ہوتا تو دریائے سندھ کے کنارے چلے جاتے،جہاں سبزی فروش شلغم وغیرہ دھوکر پتے وغیرہ چھوڑ جاتے تھے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ وہ صا ف کر کے کھالیا کرتے اور کسی پر اس کا اظہار نہیں فرماتے تھے مگر رفتہ رفتہ یہ خبر آپ کے استاد ِمحترم مولانا محمد علی مکھڈوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہتک پہنچ گئی۔مولانا محمد علی مکھڈوی
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
…سیرت حضرت شمس الدین سیالوی ،ص۳۵،انوارِشمسیہ ،ص۲۹بتغیرٍ قلیلٍ