Brailvi Books

فیضانِ شَمسُ العَارِفِین
6 - 77
 سفر کےمتعلق فرماتے ہیں: میں نےموضع ڈھوک میکی میں’’کریما‘‘اور’’نامِ حق‘‘ کا دو ماہ تک درس لیا ۔اس کے بعد مکھڈ شریف میں ماموں احمد دینرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی  عَلَیْہ کی خدمت میں ’’پند نامہ عطار‘‘شروع کیا حتی کہ نظم کی تمام درسی  کتابیں اُنہی سے پڑھیں۔اس کے بعد صَرف ونحو اورمنطق کی کتابیں مولانا محمدعلی مکھڈوی چشتی نظامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے پڑھیں،تیرہ سال ہیں گزارے۔اس کے بعد دوسال موضع اخلاص میں گزارے ،پہلے سال شرح  وِقایہ اوردو سرے سال مُطَوَّل  پڑھی۔اس کے بعد چھ ماہ کابل شہر میں رہ کر ہِدایہ شریف پڑھی اور ساتھ
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں آپ کے فضل وکمال کا شُہرہ تھا، علم پروری میں آپ بے مثال تھے، آپ کے اساتذہ میں  مولانا محکم الدین مکھڈوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کا نام نمایاں ہے۔مرشدِ کامل کی تلاش میں جب آپ اپنے شاگردِ خاص خواجہ شمس الدین سیالوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کو ہمراہ لئے مکھڈشریف (ضلع اٹک)سے بارگاہِ تونسوی (ضلع ڈیرہ غازی خان)میں پہنچے،خواجہ صاحب نے پوچھا: کہاں سے آئے ہو؟عرض کیا:مکھڈ سے، حضرت خواجہ نے فرمایا: مکھڈ میں ایک مولوی  صاحب رہتے ہیں  جن کے علم کی بڑی شہرت ہے،عرض کی:  مولوی مجھے ہی کہتے ہیں،خواجہ صاحب نے اٹھ کر گلے لگایا اور اپنے پاس بٹھایا،آپ ۶ماہ تک برابر خدمتِ خواجہ میں رہ کر اکتسابِِ فیض کرتے رہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  تا حیات درس وتدریس میں مشغول اور وعظ وتبلیغ میں  مصروف رہے،آپ سے بے شمار تشنگانِ علوم نے اپنی پیاس بجھائی،کئی گم کردہ راہوں نے ہدایت پائی،عوام وخواص آپ کے درِ دولت سے فیضیاب ہوئے،شمس العارفین حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ آپ کے مشہور تلامذہ میں سے ہیں۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ۲۹ رمضان المبارک۱۲۵۳ھ کووصال فرمایا،آپ کا مزار پر انوار مکھڈ شریف(ضلع اٹک) پاکستان میں واقع  ہے۔(تذکرہ اولیائے پاکستان،۲/۱۷۴ ملخصاً)