آمادہ نہیں ہوئے۔مجبوراً آپ کے والدصاحب نے حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا ماجرا عرض کیا، حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے مولانا محمد علی مکھڈوی چشتی نظامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو ایک مکتوب لکھا:’’تم نے اس فقیر کو کیوں اسیر(قیدی)بنا رکھا ہے؟ اس کو اس کے والدین کے پاس بھیج دو اور ساتھ ہی حضرت خواجہ شمس الدین سیالویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو فرمایا کہ وہ والدین کے پاس جائیں اور نکاح کریں۔‘‘ چنانچہ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاپنے پیر و مرشد کے حکم پر وطن تشریف لائے اور 34 سال کی عمر میں اپنے چچا میاں احمد یار کی دختر نیک اختر سے نکاح فرمایا۔شادی کےبعدآپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے وطن سیال شریف میں ہی قیام کا ارادہ فرمایا اور ارشادِ مرشد کے مطابق تمام اوراد و اذکار ادا کرنے کے ساتھ درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ (1)
حُصُولِ علمِ تَصَوُّف
حضرت خواجہ شمس الدین سیالویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ظاہری علوم کی تکمیل کےبعدحضرت خواجہ محمدسلیمان تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی خدمت میں حاضر ہو کرتصوف کی کچھ کتب پڑھیں۔ جن میں خاص طور پر لَوَائِحِ جَامِی،لَمْعَاتِ عِرَاقِیْ،
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
… تاریخ مشائخ چشت ،ص ۵۳۴ملخصاً، المصطفیٰ و المرتضیٰ،ص ۵۰۵ ملخصاً