نظامی تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا ذکرِ خیر کچھ اس اندازسے کیا کہ آپ کا دل اِن کی زیارت کے لئے بے قرار ہو گیا۔ اس وقت حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عمر اٹھارہ سال تھی،علم ِحدیث و فقہ حاصل کر چکے تھے اور دل میں باطنی تعلیم کا بھی ذوق شوق تھا ۔چنانچہ اُستادِ محترم نے اپنے شاگردِ رشید(حضرت خواجہ شمس الدین سیالویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَا لٰی عَلَیْہ)کو ساتھ لیااورحضرت خواجہ محمد سلیمان تونسویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔ حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے دونوں کو مریدکر لیا۔ کچھ عرصہ قیام کے بعد استاد و شاگرد واپس مکھڈآگئے ۔(1)
وطن واپسی اور سنّتِ نکاح
آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےاستاد ِمحترم مولانا علی محمد مکھڈوی چشتی نظامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی ۔انہیں خیال ہوا کہ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کواپنا جانشین بنالیں،ویسےبھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اپنے بیٹے کی طرح رکھتے اور آپ کی علمی ترقی کے لئے دل و جان سے کوشش فرماتےتھے ،انھوں نے اپنا سارا مال ومتاع آپ کےسپرد کر دیا اور مدرسہ میں اپنا نائب بنا دیا۔اسی دوران آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے والدین آپ کی شادی کے لئے مُصِر ہوئے لیکن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فی الحال مکھڈ چھوڑنے اور ازدواجی زندگی کی ذمہ داریاں قبول کرنے کے لئے
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
… تاریخ مشائخ چشت ،ص ۵۳۴ملخصاً،تذکرہ اکابر اہل سنت،ص۱۷۶ ملخصاً