Brailvi Books

فیضانِ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
8 - 68
(2)حضرت سیدنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ نبیوں کے تاجوَر، مَحبوبِ رَبِّ اکبر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافرمان پر وقار ہے : جب کوئی بندہ ذکرو نَماز کے لئے مسجد کو ٹھکانا بنالیتاہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے ایسے خوش ہوتا ہے جیسے لوگ اپنے گمشدہ شخص کی اپنے ہاں آمد پر خوش ہوتے ہیں۔(1)
 (3)حضرت سیّدنا ابو سَعِیْدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے كہ دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے :جو مسجد سے محبت کرتا ہے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اسے اپنا محبوب بنا لیتاہے ۔(2)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !	 صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
زمانہ طالب علمی
	حضرت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن کے زمانہ طالب علمی کو پانچ اَدوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہےپہلا دورآبائی بستی اوجھیانی (ضلع بدایوں، یوپی ہند )میں والد ماجد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی سرپرستی میں شروع ہوااور گیارہ برس کی عمر میں ختم ہوا۔ اس میں قرآن پاک کی تعلیم سے لے کر فارسی کی نصابی تعلیم اور درسِ نظامی کی ابتدائی کتب شامل رہیں۔دوسراتعلیمی دور  بدایوں شہر میں گزرا جہاں آپ نے تقریباً ۱۳۲۵ھ بمطابق 1905ءمیں مدرسہ شمس العلوم میں داخلہ لیا اور حضرت علامہ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  …  ابن ماجہ،کتا ب المساجد والجماعات ،با ب لزوم المساجد،۱/۴۳۸،حدیث:۸۰۰ 
  2…  مجمع الزوائد،کتا ب الصلوۃ ،با ب لزوم المساجد،۲/۱۳۵،حدیث:۲۰۳۱