Brailvi Books

فیضانِ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
37 - 68
 گیاجب مفتی صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہال میں تشریف لائے تو میں سمجھ ہی نہیں پایا کہ بالکل دبلے پتلے، سادہ سے کپڑوں میں ملبوس نظر آنے والی یہ شخصیت  کون  ہے ؟بعد میں معلوم ہوا کہ یہی مفتی احمد یار خان  صاحب ہیں  جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بیان شروع فرمایاتو اعلی حضرت امام اہل سنت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے نعتیہ کلام کا ایک شعر پڑھا، شعر یہ ہے :
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
	پھر اس شعر کی تشریح بیان کرتے ہوئے حبیب اور شریک کا فرق بیان کیاکہ حبیب کا مقام و مرتبہ کیا ہے اور کسے کہتے ہیں اور شریک کون ہوتا ہے  یوں معلوم ہوتا تھا کہ زبانِ مبارک سے علم کے چشمے ابل رہے ہیں میں حیران تھا کہ  سادگی کا یہ انداز اور ایسا زور دار علمی بیان کہ  بس کچھ نہ پوچھئے ،اسی بیان کے دوران آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئےفرمایا کہ مدینہ منورہ میں  میرے ہاتھ میں چوٹ لگ گئی تھی  جس کی وجہ سے ہڈی ٹوٹ گئی ،بڑا درد اور تکلیف ہوئی ڈاکٹروں کودکھا یا تو انہوں نےکہا:آپریشن کرکے ہڈی کو جوڑنا پڑے گا ،چنانچہ  میں نے اپنا ذہن بنالیا کہ آپریشن کروالیتے ہیں پھر خیال آیا کہ اس میں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟میں تو مدینے میں ہوں اور یہ درد بھی مجھے مدینے کی نورانی  فضاؤں  اور پرکیف ہواؤں میں ملا ہے ،جونہی دل میں یہ خیال آیا میں نے فوراً اپنے ہاتھ کے