Brailvi Books

فیضانِ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
34 - 68
 والوں سے  گلہ شکوہ کیانہ کبھی گھر میں کوئی کلام کیا آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْھَا کو حضرت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ  الرَّحْمٰنکے منصب دینی اور اس کے تقاضوں کو کامل احساس تھا اس لئے امور خانہ داری سے لے کر بچوں کی تربیت تک کے تمام فرائض  احساس ذمہ داری کے ساتھ ادا کرتی رہیں گھر بار کی مصروفیات کے باوجودگھر کی ہر چیز انتہائی سلیقے اور قرینے سے سجی ہوتی گھر کا  ماحول ایسا خوش گوار رکھتی تھیں کہ  مفتی صاحب کو کبھی ناگواری کا احساس نہ ہوتا۔ دکھ تکلیف یا رنج و غم کی کوئی لہر اٹھتی تو اس عظیم خاتون کے تحمل مزاجی اور بردباری کی دیوارسے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاتی۔آخری ایام میں صحت گرنے لگی تھی جس کی وجہ سے کمزوری بڑھتی گئی مگر اس کے باوجودگھر کے فرائض ،نماز روزہ اور بچوں کی تعلیم میں فرق نہ آنے دیا صرف گجرات ہی میں سینکڑوں اسلامی بہنوں، مدنی منوں اور مدنی منیوں نے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْھَا سے پورا قرآن پاک تجوید کے ساتھ پڑھا تھا حضرت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ  الرَّحْمٰنکی تمام اولاد انہی کے بطن سے ہوئی تھی آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْھا کا انتقال 1949ء میں ہوا جس کا حضرت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ  الرَّحْمٰنکو گہرا رنج پہنچا۔1955ءایک  نیک اور بیوہ  خاتون سے دوسرا نکاح فرمایا جنہوں نے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت اور امورِ خانہ داری میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کی اس نیک خاتون نے حضرت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ  الرَّحْمٰنکی تمام اولاد کو اپنی اولاد ہی سمجھا